Hawaon ka safar afsana by Rania Shahid
ہواؤں کا سفر
افسانہ
تحریر :
رانیہ شاہد
آبش فلائٹ سے واپس آچکی تھی اور اب ٹیکسی میں بیٹھی
ائرپورٹ سے گھر واپس جا رہی تھی ۔ وہ خوش تھی اور خوش کیوں نہ ہوتی وہ اپنا خواب پورا
کررہی تھی ۔ ایئرہوسٹس بننا اس کا خواب ہی تو تھا ۔ اس کو یقین نہیں آر ہا تھا
کہ بالآخر اس کا خواب حقیقت بن گیا تھا ۔ آج اس کی پہلی فلائٹ تھی۔ ابھی تو زندگی میں
لاتعداد فلائٹس باقی تھیں ہواوں کا سفر کرنے کے لیے ۔ اس نے پرجوش ہوتے ہوئے سوچا۔
اسے یاد تھا تھوڑے عرصے پہلے اس نے جب امی سے ایئرہوسٹس بننے کی بات کی تو پہلے تو
انہوں نے صاف منع کر دیا مگر پھر ان کو اپنی اکلوتی بیٹی کی اکلوتی خواہش کے آگے ہار
ماننا ہی پڑی ۔ اس کے علاوہ ان کا اس دنیا میں اور تھا بھی کون ۔ آبش ڈیڑھ سال کی تھی
جب ان کے شوہر دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے ۔ انہوں نے اپنی زندگی میں بڑی مشکلیں
جھیلیں تھیں اور اب آبش ہی تو ان کا کل اثاثہ تھی ۔ ان کے بہن بھائیوں نے بہت
زور دیا کہ وہ ابھی جوان ہیں دوسری شادی کر لیں مگر ہر بار ان کو اپنی معصوم بچی کا
خیال آ جاتا ۔ اور وہ یہ سوچ کر انکار کر دیتیں کہ آبش ابھی بہت چھوٹی ہے نہ جانے دوسرا
باپ کیسا سلوک کرے اس کے ساتھ ۔ ان کے بہن بھائی بڑی تسلیاں دیتے مگر ان کا دل نہ مانتا
۔ انہوں نے ساری جوانی ایک فیکٹری میں نوکری کر کے گزاری تاکہ آبش کی تعلیم و تربیت
اچھے سے ہو سکے ۔ اور پھر آج یوں اچانک آبش نے ان کے سامنے ایئرہوسٹس بننے کی فرمائش
رکھ دی تھی ۔ وہ بچپن میں بھی ان سے وقتا فوقتا اس خواہش کا اظہار کرتی رہی تھی مگر
انہوں نے بچی ہے بڑے ہو کر خواہشیں اور سوچ دونوں بدل جائیں گی کہہ کر ٹال دیا
۔ ان کو جہازوں سے بڑا ڈر لگتا تھا نہ جانے کہاں کب گر کے تباہ ہو جائیں ۔ اور پھر
بعد میں بچتا بھی تو کوئی نہیں ہے ان حادثوں میں ۔ انہوں نے آبش کو صاف انکار کر دیا
تھا ۔ اس دن سے آبش اپنے کمرے میں بند تھی نہ کچھ کھاتی تھی نہ پیتی تھی صرف ایک ہی
ضد تھی اس کی کہ مجھے ہر حال میں ایئرہوسٹس بننا ہے ۔ آخرکار ان کو ہی اپنی ضد چھوڑنی
پڑی ۔ دل پے پتھر رکھ کر انہوں نے اس کو اجازت دے دی۔ اور آج اس کی پہلی فلائٹ تھی
وہ بے حد خوشی سے گھر سے نکلی تھی ۔ ان کا ڈر ایک طرف مگر وہ بھی اپنی بیٹی کی خوشی
میں خوش تھیں ۔ اس نے فلائٹ کے اڑنے سے پہلے انہیں فون پے اپنے خیریت سے آگاہ کیا تھا
۔ اور فلائٹ کے لینڈ کرتے ہی اس نے سب سے پہلے ان کو فون کر کے اپنی خیریت بتائی تھی
۔ گھر آ کے بھی وہ بے حد خوش تھی ۔ وہ انہیں اپنے پورے دن کا حال سنا رہی تھی اور وہ
چہرے پر ایک مدھم مسکراہٹ لیے اسے سن رہیں تھیں ۔ اور پھر دن اسی طرح گزرتے رہے ۔اور
کئی مہینے گزر گئے ۔ ان کا ڈر آہستہ آہستہ ختم ہوتا جا رہا تھا چونکہ وہ اب بھی فون
پے ان کے ساتھ رابطے میں ہی رہتی تھی اور اگر کبھی فلائٹ لیٹ ہو جاتی تو وہ فون کر
کے ان کو آگاہ کر دیتی ۔ جو واحد تبدیلی ان چند مہینوں میں آئی تھی وہ آبش کی بات پکی
تھی اس کی شادی کی ڈیٹ طے ہو گئی تھی اور شادی کی شاپنگ زور و شور سے چل رہی تھی ۔
دو دن بعد اس کی مایوں تھی ۔ رات کے وقت وہ دونوں باہر صحن میں بیٹھیں
چاے پی رہیں تھیں ۔ " اماں ! صبح میری سات بجے کی فلائٹ ہے جلدی اٹھا دیجئے گا
" اس نے کہا " ارے پرسوں تمہاری ما یوں ہے اور دلہن ایک دن پہلے کام پے جائے
گی اسی لیے میں تمہاری اتنی جلدی شادی کروا رہی ہوں اپنے گھر کی ہو جاو گی تو اس فضول
اور خطرناک سی نوکری کو بھی چھوڑدوگی " انہوں نے بیزاریت سے کہا۔ " اماں
! آپ سے کتنی دفعہ کہا ہے فضول نوکری نہ کہا کریں خواب ہے یہ میرا یہ تو ان حسین ہواوں
کا سفر ہے جو زمین سے بہت دور ہیں " اس نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے لمبی سانس
کھینچی جیسے ان ہواوں کو اپنے اندر اتار رہی ہو ۔ " یہ کیا تو جہاز میں سفر کر
کے نہیں دیکھ سکتی تھی اس کے لیے یہ نوکرانیوں والی نوکری کرنے کی کیا ضرورت تھی
"۔ انہوں نے اسے دیکھتے ہوئے کہا ۔ " مگر جہاز میں سفر تو زندگی میں چند
ہی بار ہو سکتا ہے نہ روز تو نہیں ہو سکتا اور جہاں تک بات ہے شادی کی تو وہ تو ہو
ہی جائے گی اور ویسے بھی کل آخری فلائٹ ہی تو ہے میری اس کے بعد کہاں میں ان ہواوں
کا سفر کر پاوں گی " ۔ اس نے اٹھ کر ان کے گلے میں بازو ڈالتے ہوے کہا ۔
" ہاں ہاں لگا مکھن ماں کو " انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا ۔" مکھن کیوں
میری اماں کیا ٹوسٹ ہے " اس نے اندر بھاگتے ہوئے چلا کر کہا ۔ " رک ذرا تو
بد تمیز " انہوں نے اسے مارنے کے لیے پاوں سے جوتی اتارتے ہوئے کہا ۔ اتنی دیر
تک وہ اندر بھاگ چکی تھی ۔ اگلے دن کا سورج پوری آب و تاب سے طلوع ہوا تھا ۔ وہ صبح
ائرپورٹ کے لیے نکل گئی تھی ۔ اور فلائٹ میں بیٹھنے سے پہلے اس نے فون بھی کر دیا تھا
۔ کل ما یوں تھی شمیم بیگم کے سارے بہن بھائی اور رشتے دار آج آ رہے تھے ۔ وہ تیاریوں
میں مگن تھیں۔ اس کی فلائٹ لاہور سے کراچی کی تھی ۔ اس کی فلائٹ تقریبا ایک گھنٹے
پینتالیس منٹ کی تھی ۔ ان کو 45 : 08 پے کراچی لینڈ کرنا تھا ۔
کسی تکنیکی خرابی کے باعث جہاز رن وے پے لینڈ نہیں کر سکا
تھا ۔ تھوڑی ہی دیر بعد پائلٹ نے ان کو جہاز کے ایک انجن میں آگ لگنے کی اطلاع دی تھی
۔ایک طرف شادی کی تیاریاں چل رہیں تھیں اور دوسری طرف وہ پورا جہاز دعائیں مانگ رہا
تھا اپنے ذندہ واپس لوٹ جا نے کی مگر شاید تقدیر کو آج کچھ اور ہی منظور تھا ۔ جہاز
کے دوسرے انجن میں بھی آگ لگ چکی تھی ۔ پورے جہاز میں ایک کہرام مچا ہوا تھا ۔ لوگ
زندگی کے لیے بلک رہے تھے ۔ کوئی کلمہ پڑھ رہا تھا کوئی اپنے پیاروں سے اب کبھی نہ
ملنے کے لیے آنسو بہا رہا تھا ۔ پائلٹ نے ان کو بتا دیا تھا کہ اب شاید یہ جہاز کبھی
لینڈ نہ کر سکے ۔ وہ خاموش تھی بالکل خاموش ۔ جو چہرہ اس کی آنکھوں کے سامنے بار بار
آرہا تھا وہ اس کی ماں کا تھا ۔ کل تو اس کی ما یوں تھی ابھی تو اس کی شادی بھی ہونی
تھی ۔ اس کو شادی کی فکر نہیں تھی فکر تو اس کو اپنی ماں کی تھی ۔ اس کو بچپن کے وہ
دن یاد تھے جب اس کی ماں اس کو ہمسائیوں کے گھر چھوڑ کے خود فیکٹری جاتی تھی اور شام
کو گھر واپس لوٹتی تھی ۔ کیا زندگی اتنی تھوڑی تھی ؟ کیا اب وہ کبھی اپنی ماں سے نہیں
مل پاے گی ؟ کیا اس کے کان اب کبھی اس کی ماں کی آواز نہیں سن پائیں گے ؟ پائلٹ سے
جہاز سنبھالنا بے حد مشکل ہو گیا تھا ۔ موت ان سب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑی تھی
۔ اور پھر چند سیکنڈ میں جہاذ تباہ ہو گیا تھا ۔ اور زندگی ختم ۔ اسی لمحے اتنی دور
بیٹھی ہوئی اس کی ماں کا دل کانپ گیا تھا ۔ انہوں نے بے احتیار اپنے دل پے ہاتھ رکھا
۔ " کیا ہوا آنٹی ؟ " آبش کی بچپن کی دوست ان کے پاس آ کے بیٹھ گئی ۔
" آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے نہ " اس نے ان کے کاندھے پے ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
۔ " علینا! پتا نہیں میرا دل کیوں اتنا گھبر ا رہا ہے " انہوں نے فکرمند
چہرے کے ساتھ کہا ۔ " آبش منع کر کے گئی تھی کہ آپ کو کوئی کام نہ کرنے دوں
لیکن آپ ہیں کہ صبح سے کاموں میں لگی ہوئی ہیں اوپر سے گرمی بھی تو بہت ہے نہ اسی وجہ
سے دل گھبرا رہا ہوگا " ۔ " آبش کی فلائٹ اب تک تو لینڈ کر چکی ہو گی نہ
اسے فون کرو میری بات کرواو اس سے " انہوں نے فکرمندی سے اسے پاس پڑا ہوا فون
پکڑاتے ہوئے کہا ۔ " آپ فکر نہ کریں میں کرتی ہوں " علینا نے فون پکڑتے ہوئے
انہیں تسلی دی ۔ علینا فون کرنے کی غرض سے اندر آئی تو اس کی نظر سامنے ٹی وی پے چلتی
ہوئی ہیڈ لائن کی طرف پڑ گئی ۔ وہ ساکت رہ گئی ۔ نیوز کاسٹر کہ رہی تھی " آپ کو
بتاتے چلیں لاہور سے کراچی جانے والی فلائٹ کو حادثہ پیش آگیا ہے " " ذرائع
کے مطابق کسی تکنیکی خرابی کے باعث جہاز کراچی ائرپورٹ پے لینڈ نہیں کر سکا اور رہائشی
علاقے میں گر کر تباہ ہو گیا ۔ " وہ ابھی تک ساکت کھڑی تھی ۔ ابھی صبح کا وقت
تھا ۔ سب دور کے رشتے داروں نے دوپہر کو آنا شروع کرنا تھا ۔ گھر میں اس وقت
وہ دونوں ہی تھیں ۔ اس نے جلدی سے ریموٹ پکڑ کے ٹی وی بند کردیا کہ کہیں آنٹی نہ سن
لیں ۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کرے تو کیا کرے ۔ وہ فون وہاں پے رکھ کے جلدی
سے باہر کو بھاگی ۔ " آنٹی جلدی کریں ہمیں ائرپورٹ کے لیے نکلنا ہے " اس
نے اپنی چادر اور بیگ پکڑتے ہوئے کہا ۔ " کیوں آبش ٹھیک تو ہے نہ تمھاری اس سے
بات ہوئی " ان کو اس طرح اچانک ایئرپورٹ جانے والی بات نے ریڈ سگنل دے دیا تھا
کہ کچھ تو غلط تھا ۔ " آنٹی ابھی میں آپ کو کچھ نہیں بتا سکتی کیوں کہ میں خود
بھی کچھ نہیں جانتی بس آپ جلدی سے میرے ساتھ چلیں سب کچھ وہاں جا کے پتا چلے گا
" اس نے چادر لیتے ہوئے کہا ۔ " اچھا رکو میں چادر لے آؤں پھر چلتے ہیں
" انہوں نے اندر جاتے ہوئے کہا ۔ وہ دونوں ائرپورٹ آ گئیں تھیں ۔ ائرپورٹ لوگوں
سے بھرا ہوا تھا ۔ ہر کوئی اپنے پیاروں کا پتا کرنے آیا تھا ۔ علینا نے بڑی شدت سے
دعا کی تھی کاش اس فلائٹ میں آبش ہو ہی نہ وہ کسی اور فلائٹ میں ہو ۔ " آنٹی آپ
یہاں بیٹھیں میں ابھی آتی ہوں " اس نے ان کو ایک بینچ پے بٹھاتے ہوئے کہا ۔
" مگر آخر ہوا کیا ہے یہاں کیوں لائی ہو اور آبش کہاں ہے " ۔ " میں
آپ کو سب بتاتی ہوں بس تھوڑی دیر انتظار کر لیں " ۔اس نے سامنے کیبن میں بیٹھے
ہوئے ایک لڑکے سے پوچھا " کیا آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ جس پلین کو حادثہ پیش آیا
ہے اس میں ایئرہوسٹس آبش رحمان تھیں ؟ " اس نے دھڑکتے دل سے پوچھا ۔ " میں
چیک کر کے بتاتا ہوں " اس لڑکے نے کمپیوٹر پر چند انگلیاں چلانے کے بعد اسے دیکھتے
ہوئے کہا ۔ " جی وہ اسی فلائٹ میں تھیں " اور اس کو اپنی دھڑکنیں رکتیں ہوئیں
محسوس ہوئیں ۔ اس نے ایک نظر پیچھے بیٹھی ہوئی اس بوڑھی عورت کو دیکھا کیا بتاتی وہ
اس بوڑھی عورت کو کہ اس کی پہلی اور آخری اولاد مر گئ ہے وہ بھی اپنی شادی سے ایک دن
پہلے اور کیا وہ یہ غم سہہ پائیں گی ۔ کتنا سمجھایا تھا تمھیں آبش کے پانی اور ہواوں
کے سفر انسان کو نگل جاتے ہیں مگر تم نے ایک نہیں مانی ۔ اس نے اپنے اندر ہمت جمع کرتے
ہوئے ان کو بتایا ۔
"
آنٹی وہ آبش کا پلین کریش ہو گیا ہے " اس نے ایک ہی
سانس میں بول دیا ۔ اور شمیم بیگم کو لگا جیسے کسی نے ان کا سینا چیڑ دیا ہے ۔ ان کو
لگا وہ اگلا سانس نہیں لے پائیں گی ۔ تھوڑی دیر بعد انہوں نے کہا " وہ سروائو
کر جاے گی نہ علینا " ایک چھوٹی سی آس کے ساتھ انہوں نے اس کی طرف دیکھا ۔ علینا
نے روتے ہوئے نفی میں سر ہلایا " کوئی بھی سروائو نہیں کر سکا " ان کو اس
کی کل رات کی باتیں یاد آرہیں تھیں "مکھن کیوں میری اماں کیا ٹوسٹ ہے " ان
کی آنکھوں سے پانی سیلاب کی طرح بہہ رہا تھا ۔ ان کو یاد ہے کل رات کو وہ بہت اداس
تھی کہ صبح اس کی آخری فلائٹ ہے ۔ وہ اداسی تو موت کی اداسی تھی ۔ اور ابھی تو
ان کو اپنی بیٹی کو دلہن بنا بھی دیکھنا تھا ۔ انہوں نے ارد گرد لوگوں کو روتا ہوا
دیکھا ۔ کوئی اپنے باپ کے لیے پریشان تھا تو کوئی اپنے بھائی کے لیے رو رہا تھا ۔ ابھی
کچھ دیر پہلے ہی کسی کے سروائو نہ کرنے کی خبر آئی تھی ۔ آج صرف وہ ڈیڑھ سو لوگ نہیں
مرے تھے بلکہ ان کے ساتھ کیئوں کی خوشیاں ، خواب اور زندگی ختم ہوئی تھی ۔ اور کیئں
اپنے پیارے رشتوں سے محروم ہو گئے تھے ۔ شمیم بیگم نے درد سے پھٹتے ہوئے دل کے ساتھ
اتنی زور کی چیخ ماری کہ ائرپورٹ کے در و دیوار کانپ اٹھے ۔
ختم شد ۔
)
رانیہ شاہد (
Comments
Post a Comment