Kya koe hai by Muhammad Abdullah Butt
: کیا کوٸی ہے؟
تحریر : محمد عبداللہ بٹ
میرے قارٸین جا نتے ہیں کہ میں سیاست یا سیاست دانوں پر تنقید نہیں کرتا لیکن پیرومرشد مرزا غالب کی طرح یہ کہنے پر دل مجبور ہو ہی جاتا ہے کہ
رکھیٸو غالب مجھے اس تلخ نواٸی میں معاف
آج کچھ درد میرے دل میں سوا ہوتا ہے
پاکستان میں یوں تو بہت سے مساٸل ہیں لیکن صحت،تعلیم اور بے روزگاری سب سے بڑے مساٸل ہیں۔ پاکستان کے حکمران اقتدار میں آنے سے پہلے بڑے بڑے دعوٸے تو کرتے ہیں لیکن اقتدار میں آکر سب کچھ بھول جاتے ہیں آج کل اپوزیشن جماعتیں حکومت کو گرانے میں مصروف ہیں اور حکومت کے لوگ اپوزیشن کو نیچا دیکھانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن غریب عوام کا کوٸی نہیں سوچتا صرف اقتدار کی بھوک نے لوگوں کو لالچی بنا دیا ہے۔
غریب پاکستانی عوام کرے تو کیا کرے۔روزگار کے مواقع ہے ہی نہیں،کھانے پینے کی چیزیں دن بدن مہنگی ہوتی جا رہی ہیں پاکستان میں تین وقت کی روٹی کمانا مشکل ہوگٸی ہے۔نوجوان ہاتھ میں ڈگریاں لیے لیے پھرتے ہیں لیکن ان کو کوٸی مناسب نوکری نہیں ملتی ہے۔حکمران کہتے ہیں کہ ملک درست سمت میں جا رہا ہے کیا کوٸی ہے جو ان کو بتاٸے کہ درست سمت کا یہ مطلب ہے کہ لوگ بے روزگار رہیں، انصاف مہنگا ہو جاٸے،غریب مہنگاٸی سے مر جاٸے وغیرہ۔
پاکستان تحریک انصاف جب سے حکومت میں آٸی ہے تب سے ٹیکس بڑھ گٸے ہیں یہ بوجھ بھی غریب عوام برداشت کر رہی ہے۔کوٸی پوچھنے بتانے والا ہی نہیں اب کرونا کی بات کرلیں تو سکول و کالج وغیرہ بند کر دیٸے گٸے ہیں اور مارکیٹ و بازار کھلے ہیں یہ کیسا واٸرس ہے جو مارکیٹ و بازار میں نہیں آتا لیکن سکول و کالج میں آتا ہے حالانکہ سکول و کالج
ایس او پیز پر زیادہ عمل کرتے ہیں ۔
میڈیا پے بھی ہر روز اپوزیشن اور حکومت کے بارے میں بات ہوتی ہے لیکن عوامی مساٸل کو کوٸی زیر بحث نہیں لاتا عوام بھی اس طرح کی بحث کو بہت پسند کرتی ہے جسں میں حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کو بُرا بھلا کہتے ہیں کوٸی ہے جو عوام،حکومت اور اپوزیشن کو سمجھاٸے؟
واصف علی واصف فرماتے ہیں ”کیڑے مکوڑے مچھر مکھی،چوہے کل بھی پیدا ہو رہے تھے آج بھی پیدا ہو رہے ہیں کیڑے مار ادویات سے نٸے کیڑے جنم لے رہے ہیں دکھی انسان کل بھی تھا آج بھی سکھی نہیں ہے خوشی خالق کے قرب میں ہے لوگ آخرسمجھتے کیوں نہیں“۔(کرن کرن سورج)
اور خالق کا قرب مخلوق کی خدمت اور احساس سے ہی ہےمگر یہا ں کو ٸی پوچھنے والا ہی نہیں۔
دنیا میں بہت سے حکمران دیکھے ہیں لیکن عمرؓ جیسا حکمران نہیں دیکھا۔آج کے مسلمان یہ بھول گٸے ہیں کہ ان میں کوٸی عمرؓ بھی تھے آج اس امت کو پھر کسی عمرؓ کی ضروت ہے۔
تقاضا ہے کہ پھر دنیا میں شان حق ہویدا ہو
عرب کے ریگزاروں سے کوئی فاروق پیدا ہو
مساوات و عدالت کا زمانے بھر میں چرچا ہو
پھر وہی برق تجلی افق پہ آشکارا ہو
بڑا غوغا ہے پھر قصر جہاں میں اہل باطل کا
کوئی فاروق پھر اٹھے تو حق کا بول بالا ہو
تحریر : محمد عبداللہ بٹ
میرے قارٸین جا نتے ہیں کہ میں سیاست یا سیاست دانوں پر تنقید نہیں کرتا لیکن پیرومرشد مرزا غالب کی طرح یہ کہنے پر دل مجبور ہو ہی جاتا ہے کہ
رکھیٸو غالب مجھے اس تلخ نواٸی میں معاف
آج کچھ درد میرے دل میں سوا ہوتا ہے
پاکستان میں یوں تو بہت سے مساٸل ہیں لیکن صحت،تعلیم اور بے روزگاری سب سے بڑے مساٸل ہیں۔ پاکستان کے حکمران اقتدار میں آنے سے پہلے بڑے بڑے دعوٸے تو کرتے ہیں لیکن اقتدار میں آکر سب کچھ بھول جاتے ہیں آج کل اپوزیشن جماعتیں حکومت کو گرانے میں مصروف ہیں اور حکومت کے لوگ اپوزیشن کو نیچا دیکھانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن غریب عوام کا کوٸی نہیں سوچتا صرف اقتدار کی بھوک نے لوگوں کو لالچی بنا دیا ہے۔
غریب پاکستانی عوام کرے تو کیا کرے۔روزگار کے مواقع ہے ہی نہیں،کھانے پینے کی چیزیں دن بدن مہنگی ہوتی جا رہی ہیں پاکستان میں تین وقت کی روٹی کمانا مشکل ہوگٸی ہے۔نوجوان ہاتھ میں ڈگریاں لیے لیے پھرتے ہیں لیکن ان کو کوٸی مناسب نوکری نہیں ملتی ہے۔حکمران کہتے ہیں کہ ملک درست سمت میں جا رہا ہے کیا کوٸی ہے جو ان کو بتاٸے کہ درست سمت کا یہ مطلب ہے کہ لوگ بے روزگار رہیں، انصاف مہنگا ہو جاٸے،غریب مہنگاٸی سے مر جاٸے وغیرہ۔
پاکستان تحریک انصاف جب سے حکومت میں آٸی ہے تب سے ٹیکس بڑھ گٸے ہیں یہ بوجھ بھی غریب عوام برداشت کر رہی ہے۔کوٸی پوچھنے بتانے والا ہی نہیں اب کرونا کی بات کرلیں تو سکول و کالج وغیرہ بند کر دیٸے گٸے ہیں اور مارکیٹ و بازار کھلے ہیں یہ کیسا واٸرس ہے جو مارکیٹ و بازار میں نہیں آتا لیکن سکول و کالج میں آتا ہے حالانکہ سکول و کالج
ایس او پیز پر زیادہ عمل کرتے ہیں ۔
میڈیا پے بھی ہر روز اپوزیشن اور حکومت کے بارے میں بات ہوتی ہے لیکن عوامی مساٸل کو کوٸی زیر بحث نہیں لاتا عوام بھی اس طرح کی بحث کو بہت پسند کرتی ہے جسں میں حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کو بُرا بھلا کہتے ہیں کوٸی ہے جو عوام،حکومت اور اپوزیشن کو سمجھاٸے؟
واصف علی واصف فرماتے ہیں ”کیڑے مکوڑے مچھر مکھی،چوہے کل بھی پیدا ہو رہے تھے آج بھی پیدا ہو رہے ہیں کیڑے مار ادویات سے نٸے کیڑے جنم لے رہے ہیں دکھی انسان کل بھی تھا آج بھی سکھی نہیں ہے خوشی خالق کے قرب میں ہے لوگ آخرسمجھتے کیوں نہیں“۔(کرن کرن سورج)
اور خالق کا قرب مخلوق کی خدمت اور احساس سے ہی ہےمگر یہا ں کو ٸی پوچھنے والا ہی نہیں۔
دنیا میں بہت سے حکمران دیکھے ہیں لیکن عمرؓ جیسا حکمران نہیں دیکھا۔آج کے مسلمان یہ بھول گٸے ہیں کہ ان میں کوٸی عمرؓ بھی تھے آج اس امت کو پھر کسی عمرؓ کی ضروت ہے۔
تقاضا ہے کہ پھر دنیا میں شان حق ہویدا ہو
عرب کے ریگزاروں سے کوئی فاروق پیدا ہو
مساوات و عدالت کا زمانے بھر میں چرچا ہو
پھر وہی برق تجلی افق پہ آشکارا ہو
بڑا غوغا ہے پھر قصر جہاں میں اہل باطل کا
کوئی فاروق پھر اٹھے تو حق کا بول بالا ہو
xdfrlkf3
ReplyDeleteviagra
cialis 20 mg sipariş
glucotrust
cialis 100 mg resmi satış sitesi
sight care
cialis 5 mg resmi satış sitesi
https://shop.blognokta.com/urunler/ereksiyon-haplari/kamagra-100-mg-oral-jel-7-sase-etkili-sertlestirme-ilaci/