Posts

Showing posts from July, 2021

Soch samjh kar boly Article by Hafiza Amna

Kabhi kabhi humy kisi insaan ki bat itni bure lag jate (pta nhi bure lagti h ya takleeef deti ha ) bat karny wala to bol kay chala jata din b guzarty rahty..par sunny wala wah hi ruk jata us bary hi sochta aisa q howa?? Aisa q kaha gaya ??? Aisi kya bt kar di kay eska Jawab ye mila?? Waqt to guzara jata par wo alfaz sunny waly ki akleeef or aziyat me ezafa karty jaty Wo roz khud say or us bat ky bolny waly bnday kay Hawaly say khud hi khud say karta  .. Jab wja samjh nhi ate or kisi say share b na kar skta ho to sirf Khuda ky agy hath phela kay bhait jata or faryad karta Ay Allah mujy es takleeef or aziyat say nikal day Mery Malik mery dil kr niyat ko ap say bhtr koi nahi janta apky es banday nay mujy ye sab bola mery Malik mujy sabar day himmat day kay me sab logo ki baaty bardshat kar sako..😓😓 Kisi ko apny alfaaaz say baato say takleeef mat do ap nhi janty kon apny andar kis kis bat say apny sath lar raha..🙌

Hawaon ka safar afsana by Rania Shahid

Image
ہواؤں کا سفر افسانہ تحریر : رانیہ شاہد آبش  فلائٹ سے واپس آچکی تھی اور اب ٹیکسی میں بیٹھی ائرپورٹ سے گھر واپس جا رہی تھی ۔ وہ خوش تھی اور خوش کیوں نہ ہوتی وہ اپنا خواب پورا کررہی تھی ۔ ایئرہوسٹس بننا اس کا خواب ہی تو تھا ۔ اس کو یقین نہیں آر ہا  تھا کہ بالآخر اس کا خواب حقیقت بن گیا تھا ۔ آج اس کی پہلی فلائٹ تھی۔ ابھی تو زندگی میں لاتعداد فلائٹس باقی تھیں ہواوں کا سفر کرنے کے لیے ۔ اس نے پرجوش ہوتے ہوئے سوچا۔ اسے یاد تھا تھوڑے عرصے پہلے اس نے جب امی سے ایئرہوسٹس بننے کی بات کی تو پہلے تو انہوں نے صاف منع کر دیا مگر پھر ان کو اپنی اکلوتی بیٹی کی اکلوتی خواہش کے آگے ہار ماننا ہی پڑی ۔ اس کے علاوہ ان کا اس دنیا میں اور تھا بھی کون ۔ آبش ڈیڑھ سال کی تھی جب ان کے شوہر دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے ۔ انہوں نے اپنی زندگی میں بڑی مشکلیں جھیلیں تھیں اور  اب آبش ہی تو ان کا کل اثاثہ تھی ۔ ان کے بہن بھائیوں نے بہت زور دیا کہ وہ ابھی جوان ہیں دوسری شادی کر لیں مگر ہر بار ان کو اپنی معصوم بچی کا خیال آ جاتا ۔ اور وہ یہ سوچ کر انکار کر دیتیں کہ آبش ابھی بہت چھوٹی ہے نہ جانے د...

Muntazar nighahen by Hafiza Naseeha Sarwar

”منتظر  نگاہیں“ حافظہ نصیحہ سرور شادی کے بعد جب ماں کھانے کی دعوت دےتو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کو ٸ  سایہ دار درخت اپنی شاخیں ہلا کر کچھ دیر سستانے کی دعوت دے رہا ہو. دسترخوان پر اِک اِک چیز قرینے سے سجاتی امی کو میں نے غور سے دیکھتے ہو ۓ  سوچا کہ آخر امی ہمیشہ اتنا تردد کیوں کرتی ہیں؟ آخر امی کے داماد اور بیٹیاں ہی تو ہیں. پھر انواع واقسام کے کھانے پکاتی ہیں جن میں دو طرح کے چاول، چار طرح کے سالن، مختلف اقسام کے مشروب، میٹھے، را ٸ تے۔۔۔ آخر اتنے تکلف کی کیا ضرورت ہے؟ یہ تکلف کا رشتہ امی اور ہمارے درمیان کب آگیا؟ جبکہ ہم تو وہ تھے کہ ایک پلیٹ میں چار چمچ ڈال کر کھا لیا کرتے تھے. امی کبھی ہماری چھوڑی ہو ٸ ی روٹی کھا لیا کرتی تھیں تو کبھی اپنی پلیٹ سے ہمیں نوالے بنا بنا کر کھلایا کرتی تھیں. ٹی۔وی لا ٶ نج کے میز کی بجا ۓ  کھانا اب ڈا ٸ ننگ ٹیبل پر لگنے لگا تھا. کھانا اگرچہ ابھی بھی ہماری پسند کا ہی بنتا ہے کہ ماں پہلے ہی پوچھ لیتی ہیں جس چیز کو دل ہے وہ بتا دو میں بنا لوں گی. فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے ہم گرم گرم روٹی یا پراٹھا امی کے توے سے اُتارتے ہی لے جایا کرتے تھےکہ ...